کہانی

عنوان کورونا کے ساتھ موجود دوسرا وائرس۔۔۔! : کہانی
مصنف کا نام : زیب سندھی
لکھا ہوا : کورونا کے ساتھ موجود دوسرا وائرس۔۔۔!
2020-06-04
۸ ماہ پہلے
وہ روز رات کو کچھ کھانا بچا کر رکھ لیتا تھا۔ کبھی زیادہ بھوک ہونے کے باوجود، وہ کچھ بھوک برداشت کرکے بھی لازمی طور پر کھانا بچا کر رکھ لیتا تھا اور سوچتا تھا کہ، "اگر صبح کو آنے والے مہمان کو کچھ نہ پیش کر سکا تو اس کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔"
رات کا بچا ہوا کھانا اٹھا کر وہ صبح کو گھر کا دروازہ کھولتا تھا تو مہمان پہلے سے ہی دروازے پر انتظار کی حالت میں موجود ہوتا تھا۔
وہ مہمان ایک کتا تھا۔
وہ کتے کے آگے کھانا رکھتا تھا تو کتا پہلے اس کے پاؤں میں لوٹ پوٹ ہو کر اس کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتا تھا اور پھر کھانا شروع کرتا تھا۔
کھانے کے بعد کتا اس کے سامنے کھڑا رہ کر کچھ دیر تک احسان مند نظروں سے اس کی جانب دیکھتا رہتا تھا اور پھر چلا جاتا تھا۔
ایک رات اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا۔
وہ بھوکا ہی سو گیا۔
صبح کو جاگا تو اس نے اٹھ کر گھر کا دروازہ نہیں کھولا، کہ دروازے پر بیٹھے مہمان کو کھانا دینے کے لئے اس کے پاس کچھ نہ تھا۔
وہ کافی دیر تک لیٹا رہا۔
بہت دیر کے بعد جب اسے یقین ہو گیا کہ دروازے پر بیٹھا ہوا مہمان جا چکا ہو گا تو اس نے کہیں جانے کے لئے دروازہ کھولا۔
بہت دیر گزرنے کے باوجود دروازے پر اس کا مہمان کتا موجود تھا۔
اس نے نیچے جھک کر کتے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو کھانا نہ ملنے کے باوجود بھی کتا اس کے پیروں پر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔ روز کی طرح کچھ دیر اس کی طرف دیکھتا رہا اور پھر چلا گیا۔
کتے کو کچھ نہ کھلانے کا دکھ اس کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتا رہا لیکن سارا دن وہ خود بھی بھوکا ہی رہا اور رات کو پھر خالی پیٹ سو گیا۔
صبح کو آٹھ کر اس نے گھر کا دروازہ کھولا تو اس کا مہمان کتا دروازے کے پاس ہی بیٹھا تھا۔
کتا اسے خالی ہاتھ دیکھنے کے باوجود اس کے پیروں پر پیار سے لوٹ پوٹ ہوا۔ کچھ دیر خاموش نظروں سے اس کی جانب دیکھتا رہا اور پھر چلا گیا۔
اس نے ایک پڑوسی کو کہتے سنا کہ، کچھ فاصلے پر موجود میدان پر امدادی سامان بانٹا جا رہا ہے۔ اس نے امداد اور خیرات کے طور پر ملنے والا سامان لینے کے لئے سوچا بھی نہیں تھا لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے، نہ چاہتے ہوئے بھی وہ میدان کی جانب چل پڑا۔
میدان پر ایک دولتمند شخص، ایک بوڑھے نادار انسان کو پانچ کلو آٹے کا تھیلا دیتے ہوئے مسکرا کر تصویر بنوا رہا تھا۔
دوسری جانب تین عوامی نمائندے غریب بچے کو ایک سستا صابن دیتے ہوئے اور اپنے دانت دکھاتے ہوئے تصویر بنوا رہے تھے۔ صابن کے ریپر کے اوپر ایک اسٹکر چپکا ہوا تھا، جس پر ان تینوں عوامی نمائندوں کے نام اور عہدے لکھے ہوئے تھے۔
کچھ فاصلے پر پانچ اشخاص ایک خوبصورت اور نوجوان غریب عورت کو کھانے کے سامان کی ایک چھوٹی سی پلاسٹک بیگ دے رہے تھے۔ پانچوں افراد کے چہروں پر مسکراہٹ تھی اور پانچوں کے ہاتھ پلاسٹک بیگ کو پکڑے ہوئے تھے۔ ناچار خوبصورت عورت کا سر شرم سے جھکآ ہوا تھا اور اس نے اپنے دوپٹے کے پلو کو دانتوں تلے دبا رکھا تھا۔
سامنے کھڑے نوجوان نے موبائل فون سے تصویر بنائی تو، پلاسٹک بیگ دینے والوں میں سے ایک نے چلا کر کہا، "پہلے یہ تصویر فیس بک، ٹوئیٹر اور انساٹاگرام پر پوسٹ کرو اس کے بعد کسی دوسرے مستحق کو ادھر آنے دینا۔"
کورونا کی وبا کے دوران، شہرت کے وائرس میں مبتلا ان سب لوگوں سے اس نے بہت کراہت محسوس کی۔ وہ اپنی بھوک اور عزت نفس کے ساتھ خالی ہاتھ واپس چلا گیا۔
وہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا تو کتا اس کا منتظر تھا اور کتے کے منہ میں ایک پلاسٹک بیگ کا ہینڈل تھا۔
اس نے نیچے بیٹھ کر کتے کے منہ میں پکڑا ہوا پلاسٹک بیگ کھول کر دیکھا۔ کسی کوڑے کے ڈھیر سے اٹھائی ہوئی اس تھیلی میں، بچا کر پھینکنا ہوا کچھ کھانا موجود تھا۔ اس نے کتے کے سر پر ہاتھ پھیرا تو، پیار کے ساتھ اس نے اپنے دل میں کتے کے لئے عزت کا جذبہ بھی محسوس کیا اور وہ کتے کی جانب سے دی گئی کھانے کی تھیلی اٹھا کر گھر کے اندر چلا گیا۔